“Taqdeer” has been extracted from the book “Fughane-E-Darwaish” which has been published in 2018. the book is based on the short articles of professor Haroon Ur Rashid,about ideology of Islam and society.
تقدیر
تقدیر اپنی جگہ اٹل ہے۔لیکن تقدیر ہمیشہ پردۂ غیب میں ہوتی ہے۔ بندے کا عمل اس تقدیر کو سامنے لاتا ہے۔ تقدیر کا یہ تصور بڑا گمراہ کن ہے کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ سمجھے کہ جو کچھ تقدیر میں ہو گا ہو جائے گا۔ یہ دنیا دار الاسباب اور دار العمل ہے۔ یہاں عمل لازمی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ سمجھیے کہ جو کچھ ہم عمل کرتے ہیں اسی کا نتیجہ تقدیر ہے۔ بلکہ ہمارا عمل ہی ہماری تقدیر ہے۔
بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ مثلاً کسی کا دولت مند یا حکمراں خاندان میں پیدا ہونا یا کسی مفلس اور فاقہ کش گھرانے میں پیدا ہونا۔ کسی کا پاکستان میں پیدا ہونا اور کسی کا یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونا۔ کسی کا مسلم خاندان میں پیدا ہونا اور کسی کا مشرک گھرانے میں پیدا ہونا۔ کسی کا دسویں صدی میں پیدا ہونا کسی کا بیسویں صدی میں پیدا ہونا۔ پیدائش، مقام، وقت، خاندان، رنگ، نسل یہ تمام چیزیں مطلقاً انسان کے مقدر پر مبنی ہیں۔ ان میں انسان کا کوئی عمل،۔ دخل نہیں ہوتا۔ اسی طرح ملک میں جو بڑے بڑے انقلابات آتے ہیں، بڑے بڑے آسمانی یا زمینی حادثات جو ظہور پذیر ہوتے ہیں اور انسان کی زندگی پر جو ان کے اثرات پڑتے ہیں، ان میں بھی انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ بالکل مقدر کی باتیں ہیں۔
ان سب رکاوٹوں اوربندشوں کے باوجود انسان اپنے عمل اور کوشش سے جو کچھحاصل کرتا ہے، وہی اس کی حاصلِ زندگی ہوتی ہے۔ انسان راہِ راست اختیار کر کے جب ایمان وعملِ صالح پر کاربند ہو جاتا ہے توپھر دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اس کے قدم چومتی ہے۔
اپنے عقائد درست کیجیے۔ راہِ
راست اختیار کیجئے۔ عمل کرتے رہیے۔ جو نتائج سامنے آئیں وہی آپ کی تقدیر ہے۔
اللہ پر بھروسا کیجئے۔ اس سے نیک امید رکھیے۔ اس سے دعائیں مانگتے رہیے۔ وہی تقدیر کا مالک ہے۔ عزت و ذلّت اور تمام خیر و فلاح اسی کے ہاتھ میں ہے۔
جبر و قدر کے مسائل میں نہ الجھیے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ انسان نہ مجبورِ محض ہے نہ بالکل آزاد و خود مخت