Professor Haroon-Ur-Rashid was an Urdu poet, writer, and researcher from Pakistan. he was born on 3rd July 1937 at Ghazipur (up) India. He wrote many books of which 37 books have been published so far. He was a proponent of purposeful literature, so his poetry and writings reflect the purpose, the reform of society, and the message of Islam. In the present age of materialism and intellectual decline, Professor Haroon-Ur-Rashid is counted among those personalities who engaged, in spreading the light of knowledge and wisdom, and in the reformation and training of society, free from any sort of personal benefit and fame.
Professor Haroon Ur Rashid was born on the 3rd of July 1937 in Kolkata, India. His ancestors were from Ghazipur (Uttar Pradesh). His father’s name was Ghulam Hussain. He had two brothers and two sisters. He lost his mother in his childhood and when he was only 15 years old, the shadow of his father was taken away from his head and the responsibility of the house fell on his shoulders. But he continued to face the situation with determination. At the same time, he suffered from the deadly disease tuberculosis (Tb). But he did not give up and faced every difficulty with patience and courage, He got higher education and also supported his younger brother. He completed his master’s degree in Urdu in1960. He decided to make teaching his livelihood and remained associated with it for almost 45 years. When he saw the decline of ethics and the lack of purpose in Urdu literature, He could not stay silent and took up the task of performing jihad with his pen and kept fighting for this cause till his last breath. his first book “Urdu Adab Aur Islam” was published in 1968, and then it became impossible to stop the power of his pen. He wrote many books for the betterment of society and the promotion of purposeful literature. He never compromised on the task of spreading the message of Islam and reforming the society through his unique and simplest style of writing.
Professor Haroon Ur Rashid died on 26th January 2022 ( جمادالثانی ۱۴۴۳ 22 ) in Karachi. He was buried at Gorakhpur, Muhammad shah graveyard north Karachi. His death has created a huge vacuum in the literary world, but his work, his teachings, and his dozens of books are still a beacon for generations to come.
پروفیسر ہارون الرشید پاکستان کے ایک مشہور اردو شاعر، ادیب،نقاد،تذکرہ نگار،مورخ ادب اور محقق تھے۔ وہ 3 جولائی 1937 کو غازی پور (یوپی) انڈیا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں جن میں سے اب تک 37 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ بامقصد ادب کے داعی تھے اس لیے ان کی شاعری اور تحریریں مقصدیت، اصلاح معاشرہ اور اسلام کے پیغام کی عکاسی کرتی ہیں۔ موجودہ مادیت اور فکری زوال کے دور میں پروفیسر ہارون الرشید کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو علم و حکمت کی روشنی پھیلانے اور معاشرے کی اصلاح و تربیت میں کسی بھی قسم کے ذاتی فائدے اور شہرت سے بے نیاز ہو کر مصروف عمل رہے۔
پروفیسر ہارون الرشید 3 جولائی 1937 کو بھارت کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق غازی پور (اتر پردیش) سے تھا۔ ان کے والد کا نام غلام حسین تھا۔ ان کے دو بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ انہوں نے بچپن میں ہی اپنی ماں کو کھو دیا اور جب وہ صرف 15 سال کے تھے تو ان کے سر سے والد کا سایہ بھی چھن گیا اور گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔ لیکن وہ عزم و حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ اسی دوران وہ ایک مہلک بیماری تپ دق (ٹی بی) کا شکار ہو گئے۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ہر مشکل کا صبر اور حوصلے سے مقابلہ کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنے چھوٹے بھائی کی بھی پرورش کی۔ انہوں نے 1960 میں اردو میں ایم۔اے مکمل کیا۔انہوں نے درس و تدریس کو اپنا ذریعہ معاش بنانے کا فیصلہ کیا اور تقریباً 45 سال تک اس سے وابستہ رہے۔ اردو ادب میں اخلاقیات کا زوال اور مقصدیت کا فقدان دیکھا تو خاموش نہ رہ سکے اور اپنے جہاد بلقلم کا بیڑا اٹھایا اور آخری سانس تک اسی مقصد کے لیے لڑتے رہے۔ ان کی پہلی کتاب “اردو ادب اور اسلام” 1968 میں شائع ہوئی اور پھر ان کے قلم کی طاقت کو روکنا ناممکن ہو گیا۔ انہوں نے معاشرے کی بہتری اور بامقصد ادب کے فروغ کے لیے درجنوں کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اپنے منفرد اور سادہ طرز تحریر کے ذریعے اسلام کے پیغام کو عام کرنے اور معاشرے کی اصلاح کے کام میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
پروفیسر ہارون الرشید 26 جنوری 2022 (22جمادالثانی ۱۴۴۳) کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ انہیں گورکھ پور، محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی وفات سے ادبی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے لیکن ان کا کام، ان کی تعلیمات اور ان کی درجنوں کتابیں آج بھی آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔